مولانا ابو الکلام آزاد کا نام سنتے ہی ایک ایسی شخصیت کا تصور ابھرتا ہے جو تحریر و تقریر میں اپنا ثانی نہیں رکھتا ۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ زیر مطالعہ کتاب ’غبار خاطر‘ مولانا کی سب سے آخری کتاب ہے جو ان کی زندگی میں شائع ہوئی۔ 1942 میں جب مولانا آزاد کو حراست میں لے کر مختلف مقامات پر نظر بند کر دیا گیا تو تقریباً تین سال تک آپ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ اسی زمانے کا ثمرہ یہ کتاب آپ کے سامنے ہے۔۔
غبار خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر دفعہ سے زیادہ سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور “خط غبار من است این غبار خاطر” سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: “جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبعِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔”
مولانا آزاد نے یہ خطوط شائع کرنے کے خیال سے نہیں لکھے تھے لیکن ان کی رہائی کے بعد جب مولوی اجمل خاں کو ان خطوط کا علم ہوا تو مصر ہوئے کہ انہیں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کر دیا جائے اور یوں غبارِ خاطر پہلی مرتبہ محمد اجمل خاں نے مرتب کرکے ایک مقدمہ کے ساتھ مئی 1946 میں شائع کیا،مولانا آزاد کا غبار خاطر لکھنا ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.