تیمورہوں میں
یہ کتاب تاریخ سے شغف رکھنے والوں کے لئے ایک اہم کتاب ہے۔ مارسل بریون نے امیر تیمور لنگ کی خود نوشت کا ترجمہ کیا ہے۔
امیر تیمور موجودہ ازبکستان کے شہر کیش میں پیدا ہوئے جو کہ سمر قند سے 50 کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے۔ امیر تیمور تفاخر کے طور پر خود کو منگول نسل کا بتاتے تھے اور چنگیز خان کو اپنا پردادا بتلاتے تھے مگر مورخین کے مطابق دراصل وہ ترک منگول تھے نہ کہ خالص منگول۔ امیر تیمور نے پانچ سے زائد نکاح کیے۔ امیر تیمور کے والد کا نام ”ترقائی“ تھا۔ خیبر پختونخوا میں کچھ لوگ نام کے ساتھ ”ترکئی“ قوم لکھتے ہیں، ہو سکتا ہے ان کی آپس میں کوئی نسبت ہو کیونکہ ہندوستان فتح کرنے کے لئے تیمور باب خیبر سے ہی ہندوستان میں داخل ہوا تھا۔
امیر تیمور کے سات بیٹے تھے جن کے نام حسب ذیل ہیں۔ ان میں سب سے بڑا بیٹا جہانگیر مرزا، عمر شیخ، میران شاہ، شاہ رخ، خلیل، ابراہیم، اور سعد وقاص شامل ہیں لیکن ان سب میں شاہ رخ امیر تیمور کے مقام کو پہنچ سکا۔ شاید بالی ووڈ ایکٹر شاہ رخ کا والد بھی امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ سے متاثر تھا اس لیے اس نے بیٹے کا نام شاہ رخ خان رکھا۔ کرینا کپور اور سیف علی خان نے اپنے بیٹے کا نام تیمور رکھا ہے اور اس پہ انتہا پسند ہندووں نے اس بالی ووڈ کپل پہ خوب تنقید کی پر وہ ابھی تک ڈٹے ہوئے ہیں۔
تیمور اپنی خود نوشت میں لکھتا ہے کہ میں نے خواب دیکھا کہ میرے بچپن کا استاد عبداللہ قطب میرے خواب میں آیا اور غمزدہ نظر آیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو غمزدہ کیوں ہے کیا تیرے بچوں کو وظیفہ وقت پہ نہیں مل رہا۔ عبداللہ قطب بولا: یہ کیسے ممکن ہے کہ تو کسی کا وظیفہ مقرر کرے اور کس میں اتنی جرات ہے کہ وہ وظیفہ ادا نہ کرے۔ میں نے پھر پوچھا کہ تو غمگین کیوں ہے تو عبداللہ قطب بولا میں غمگین اس لیے ہوں کہ تو مر جائے گا۔
تو اگلے تین برس میں مر جائے گا۔ عبداللہ قطب کی اس بات سے مجھے ہندوستانی برہمن کی بات یاد آئی جس نے میری بقیہ عمر کی بات کی تھی۔ ہندوستان سے واپسی کے بعد میں نے عمر رفتہ کا حساب کیا تو باقی تین ہی سال بچتے تھے۔ میں یہ بات اپنے استاد کو بتانا چاہ رہا تھا اور منظر بدل گیا۔ عالم خواب میں ہی تین برس کا عرصہ بیتا اور میں نے خود کو ایک وسیع و عریض دشت میں اپنے لشکر کے درمیان پایا اور جنوب کی جانب افق پہ ایک لکیر دکھائی دیتی ہے اور میرا سردار بتاتا ہے کہ یہ دیوار اتنی لمبی ہے کہ ایک سرا مشرق میں اور دوسرا مغرب میں یزدان تک ہے۔
میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہی دیوار چین ہے؟ وہ سردار ہاں میں جواب دیتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ دیوار کتنی ہی طویل اور مضبوط سہی لیکن پھر بھی حصار اصفہان، دیوار دہلی، اور حصار دمشق جتنی مضبوط نہیں اس لیے میں اس سے گزر جاؤں گا۔ (اسی طرح عالم خواب میں ) میں نے اٹھنا چاہا لیکن میں نے محسوس کیا کہ مجھ میں اٹھنے کی طاقت نہیں، میں نے آواز دی کہ کوئی آئے لیکن میری آواز قابل فہم نہ تھی اور میں بات کرنے کے قابل نہ تھا۔
میری آواز سن کر میرے غلام کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے مجھے اٹھانا چاہا لیکن میں کھڑا نہ ہو سکا اور انہوں نے مجھے لٹا دیا۔ طبیب نے میرا معائنہ کیا، نبض پہ انگلیاں رکھیں، میری پلکوں کو الٹا کر جائزہ لیا اور آخر میں میرے کان میں سرگوشی کی کہ اے امیر تو سکتے کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے۔ اس لیے تو اب آرام کر۔ میں نے کہا کہ میرا ٹھہرنا جنگی کاموں میں تاخیر کا سبب بنے گا اس لیے مجھے تخت رواں پہ لٹا کر چل پڑو، لیکن یہ کہنے کے لئے بھی میرے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ میں نے قلم دوات منگوائی تا کہ میں لکھ کر حکم جاری کر سکوں لیکن میں یہ بھی نہ کر سکا۔ میرے ہاتھ میں قلم اٹھانے کی سکت بھی نہ رہی۔ میرے اردگرد لوگ یہ سمجھنے لگے کہ میں مردہ ہوں اور وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اس کے جسد خاکی کو دفنانے کے لئے سمرقند لے جانا چاہیے۔ عین اس موقع پر میری آنکھ کھل گئی۔
گو کہ یہ سب خواب تھا اور تیمور نے خود نقل کیا لیکن حیران کن طور پر تیمور کی موت طبعی حالت میں تین سال بعد ملک چین کی مہم جوئی کے دوران انہی حالات میں سکتے کے عالم میں ہوئی جو اس نے خواب میں دیکھا۔ سات روز تک بستر پہ رہا اور پھر وہیں اس دار فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کی میت کو سمر قند میں دفنا دیا گیا۔ اور یوں ہندوستانی برہمن اور عبداللہ قطب کی پیش بینی اور تیمور کا عجیب و غریب خواب درست ثابت ہوا۔
تیمور نے موجودہ ہندوستان، پاکستان، ایران، افغانستان، آذربائیجان، ترکی، شام، عراق، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان، قازقستان، کرغستان جیسے ممالک اپنی قلمرو میں شامل کیے۔ وہ ملک چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اور یوں یہ ظالم و جابر حکمران جس نے لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا، عظیم سپہ سالار جس نے کروڑوں مربع کلومیٹررقبہ اپنی راجدھانی میں شامل کیا، حافظ قرآن جس نے قرآن کی سورہ کی ترتیب بدلنا چاہی اور ان کو نزولی ترتیب میں لانا چاہا لیکن علماء کے منع کرنے پہ باز رہا، عالم دین کہ جس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکتا تھا، قابل فقیہہ کہ فقہ پہ اس جیسی دسترس نہ تھی، علم دوست ایسا کہ علماء کے گھروں کو دارالامان قرار دینے والا، جنگجو ایسا کہ شاید ہی کرہ ارض پہ کوئی ایسا بہادر پیدا ہوا ہو، سنگدل ایسا کہ اپنے بیٹے کے قتل پہ بھی آنسو نہ بہانے والا، براعظم ایشیا کا بیشتر حصہ زیر نگیں کرنے والا اپنے منطقی انجام کو آن پہنچا اور 1405 عیسوی میں وفات پا گیا۔ یوں ایک چرواہے کے بیٹے نے بہادری کی بناء پہ تاریخ میں اپنا نام رقم کروایا۔ اس کا مقبرہ سمرقند میں واقع ہے جو کہ اس نے اپنی زندگی میں ہی تعمیر کروایا تھا۔
Reviews
There are no reviews yet.