سچ کا سفر سچ کا سفرپاکستان کی ہوٹل انڈسٹری کے بے تاج بادشاہ اور ”ہاشو گروپ“ کے سربراہ (بانی) جناب صدرالدین ہاشوانی کی سوانح حیات ہے جس میں تجارت، کاروبار، سیاست، منافقت، مخالفت، مشقت، محنت، جدوجہد، کامیابی، ناکامی سب کچھ پڑھنے کو ملتا ہے۔ کتاب کیاہے ایک رہنما دستاویز ہے جو محنت کرنے والے کو ایک ہی درس دیتی ہے کہ کام میں لگے رہو، کامیابی خود اس کے پاس چل کر آ جائے گی۔
کتاب کے مطالعہ کے دوران کئی دلچسپ واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں : 1983 کراچی کے میریٹ ہوٹل کے ڈسکو میں ہونے والی ایک لڑائی کا احوال ان کی ہی زبانی سنیے۔ ”یوں معلوم ہوتا تھاجیسے گزشتہ شام ڈسکو کلب میں جن دو تندخو اشخا ص کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جو بالآخر بندوقوں کی کی لڑائی میں تبدیل ہو گئی، ان میں سے ایک حاکم علی زرداری کا بگڑا ہوا پلے بوائے بیٹا آصف زرداری اور دوسرا زہری خاندان کا ایک نوجوان شخص تھا جو ایک ممتاز بلوچی قبیلے کا سربراہ تھا۔ ہائر (غیر ملکی جنرل مینجر) نے باقاعدہ طور پر دونوں کو باہر پھینکوا دیا تھا اور محافظوں نے انہیں دو چار گھونسے بھی جڑ دیے تھے۔“ اس کا نتیجہ بعد میں انہوں نے اس وقت بھگتا جب زرداری صاحب اقتدار کا حصہ بنے۔
کتاب میں جا بجا انکشافات بھی بکھرے پڑے ہیں اور مہا انکشاف یہ کہ اس وقت کے وزیر اعظم محمد خاں جونیجو نے انہیں ایک ایسی مرسڈیز کار فرخت کرنے کی کوشش کی جس کی ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی تھی ( صفحہ 109 ) ۔ اسی صفحہ پر یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ جنرل ضیاء نے بھارتی فلموں پر پابندی لگائی لیکن اس دوران وہ خود بھارتی فلمیں دیکھتے تھے۔
سچ کے اس سفر میں ہر حکومت نے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان کے راستے میں کانٹے بچھانے کی کوشش کی۔ وہ شخص جسے نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے آگے لانا چاہیے تھا، الٹا حکومت اس کے پیچھے پڑگئی اور ایسی پڑی کہ اس کو اپنے ہی ملک میں روپوشی کی سزا بھگتنا پڑی اور ”عزت سادات“ بچانے کے لیے ملک سے باہر بھی جانا پڑا۔
Reviews
There are no reviews yet.