انا الحق
خُدا سرابی سے خُود یابی تک
میں کون ہوں؟ میں کیاہوں؟ کہاں سے آیا؟ کہاں جارہاہوں؟ جمادات ہوں کہ نباتات، حیوانات ہوں یافلکیات، ذرے سے لے کر ستارے تک کو اپنے راستے کاپتہ ہے، اپنی منزل سے آگاہ ہے ۔ ہرایک چیز اپنی جگہ ٹھکانے پہ ہے، اپنے مدارمیں ہے، اپنے فلک پہ ہے۔کسی کو کسی سے کوئی شکایت نہیں، کائنات میں کہیں کوئی رقابت نہیں۔ آج تک کسی ذرے کو ذرابرابرپریشانی نہیں ہوئی، کسی پودے نے کبھی اپنے پتے نہیں نوچے، کوئی حیوان کبھی بے ایمان نہیں ہوا، کوئی ستارہ کبھی بیچارہ نہیں بنا۔یہ کائنات عدل سے بھرپور ہے۔ ہرمخلوق مطمٗن ہے، ہر خَلق مسرور ہے۔سورج نے کبھی چاند کی کھچا ئی نہیں کی، سمندرنے کبھی دریاکی دھلائی نہیں کی،گلاب نے کبھی گیندے کی رسوائی نہیں کی، شیر نے کبھی بلی کی بُرائی نہیں کی اور ایک حضرتِ انساںہے، راستے کا کچھ پتہ ہے نہ منزل کاکوئی نشاںہے۔اپناگریبان سامنے آنے پر کائناتی میزان پسِ پشت چلاجاتاہے۔جسے ستاروں پہ کمندڈالنی چاہیئے تھی وہ زمین پر گندڈال رہاہے۔جوقدرت کی خلافت کاحقدارتھاوہ فطرت کی خفت کاسزاوارہے۔ اسے کوئی سکوں ہے نہ کہیں قرارہے۔ اشرف المخلوقات کے اعزازکے باوجود آدمی کتنابے بس ہے ،کیوں اتنالاچار ہے؟
کائنات کی دیگر تمام مخلوقات کی طرح قدرت سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے یہ سب سے نبردآزماہے، اسی لئے خود سے بے خو دہے اورخُداسے جُداہے۔انبیاء وصوفیاء کی تمام تعلیمات کانچوڑسقراط کے ایک جملے ’’ خُودکوجانو‘‘میںبندہے۔ مذہبی زبان میں جسے خُداکامانناکہاجاتاہے وہ اصل میں خُودکاجانناہے، اپنی اصل پہچانناہے۔اِسی حقیقت کواقبال نے ’’تعمیرِخودی میں ہے خُدائی‘‘کالفظی جامہ دیا۔ہرعبادت کاواحدمقصدخُودتک پہنچناہے، کسی خُداتک پہنچانانہیں۔کسی رسم کے عبادت یابدعت ہونے کاواحدپیمانہ یہی ہے۔ گیتا،بائبل،قرآن اِسی ایک مسٗلہ کے وضاحتی ترجمان ہیں۔انسان کیلئے خُداکوپانا نہیں بلکہ خُودکوجاننازیادہ ضروری ہے، اِسی لئے تمام الہامی کتابوں میں خُداکی وضاحت سب سے کم اورخُودکی تفصیل سب سے زیادہ بیان کی گئی۔
نیکی بدی، گناہ ثواب،جنت دوزخ، زمین آسمان اورزندگی موت جیسے اجزائے لاینفک باہمی متضادکیوں نظرآتے ہیں؟ ہر دور میں انسان نے ان تضا دات کے تکمیلاتی جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی ۔ ہر انسان اپنی عمر کے ابتدائی دور کا براہیم ہے ۔ وہ ان تضادات کا مشاہدہ کرتا ہے، پہلے تووہ پریشان ہوتا ہے اور پھر ان تضادات کی تکمیلی حالت دیکھ کر حیران ہوتاہے،یہی حیرت اسے وجدان میں لے جاتی ہے ، عرفان تک پہنچاتی ہے اور پھر یہی وجدان اس کے لئے حکم اذان ہوتا ہے ، یہی عرفان انا الحق کا بیان ہوتاہے ۔اب اِس میں کسی بُلھے کی کیابھول؟کسی منصورکاکیاقصور؟ انسانی زندگی کا اگر کوئی مقصد ہے تووہ خود یابی تک کے اِسی سفر کا یہی قصد ہے ۔خود کو پہچاننا خدا کو جاننا ہے ، خود سے ملنا خدا سے ملاقات کرنا ہے ۔ اپنے مرکز پہ آنا فلک پہ جانا ہے ، اپنے قلب میں اترنا آسمان پر چڑھنا ہے ۔ خودآگاہی کا دوسرا نام خدائی ہے اور’’انا الحق‘‘ اسی ارتقائی سفر کا ابتدائی سنگِ میل ہے۔
Reviews
There are no reviews yet.