قدر ت اللہ شہاب ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے ادب اور بیوروکریسی دونو ں میدانوں میں اپنی شناخت قائم کی ۔ ادب میں ان کی کئی تخلیقات سامنے آئیں لیکن یہی کتاب ان کی شہرت و عظمت کا باعث بنی۔ یہ کتاب 1987میں منظر عام پر آئی اور اس کے بعد اس کی متعدد اشاعتیں آچکی ہیں ۔ یہ ایک اہم اور دلچسپ آپ بیتی ہے ۔ مختلف حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے ۔ یہ نہ صرف سوانح عمری ہے بلکہ اپنے عہد کا ایک اہم سیاسی و تاریخی مرقع بھی ہے ۔اس میں بیسویں صدی کے تمام تاریخی و سیاسی انقلابات کو لفظوں کے کیمرے میں قید کیا گیا ہے اور نسل انسانی پر ان انقلابات کے کیا اثر ات مر تب ہوئے اس کی بھی مکمل تصویر کشی کی گئی ہے ۔ یہ مصنف کے شب و روز کے حالات و واقعا ت کی ایک دلچسپ کہانی بھی ہے ۔ اس کتاب کے مطالعہ سے تقسیم سے قبل کے ہندوستان کی سیاسی و سماجی کشمکش کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ وہ صرف خشک موضوعات ہی زیر تحریر نہیں لائے ہیں بلکہ بچپن کی شرارتیں ، شوخیاں ،بے باکیاں ، نادانیا ں اور رومان بھرے جذبات بھی شامل کتاب ہیں ۔
مصنف کا تعارف
پاکستان کے نامور سول سرونٹ اور اردو ادیب قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں انہوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سیکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انہوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لئے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ شہاب صاحب کی اس خدمات کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو فلسطینی مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت تھی۔
قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ خود بھی اردو کے ایک اچھے ادیب تھے ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماںجی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔
٭24 جولائی 1986ء کو قدرت اللہ شہاب اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے.
Reviews
There are no reviews yet.