سچ تو یہ ہے
سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ اپنی اس سوانح حیات میں انہوں نے کئی سیاسی انکشافات کیے۔یہ کتاب چودھری برادران کی جدوجہد کی کہانی ہے۔
چوہدری شجاعت نے انکشاف کیا کہ نواز شریف کے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لینے سے پہلے اسلام آباد ہوٹل میں نواز شریف نے ایک پارٹی میٹنگ بلائی۔ وہاں بہت سے مقررین نے تقریریں کیں۔ میرا تقریر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مجھے مجبوراً تقریر کرنی پڑی۔چوہدری شجاعت نے کہا کہ یہ دیکھ کر کہ ارکان قومی اسمبلی کس طرح نواز شریف کی چاپلوسیاں کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میاں صاحب میں صرف تین باتیں کہنا چاہوں گا، جب آپ وزیراعظم بن جائیں تو ان تین باتوں کا بہت خیال رکھیں۔
چاپلوسوں کی باتوں میں نہ آئیں
منافقوں سے دور رہیں
آپ میں ”میں“ نہیں آنی چاہیے
یہ تین باتیں کرنے کے بعد میں اسٹیج سے نیچے اترا تو تمام ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، بعد ازاں جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر واپس گھر آرہے تھے تو اسمبلی کے آگے سے گزرتے ہوئے میاں صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ جو تین باتیں بتارہے تھے، وہ دوبارہ بیان کریں، میں نے دوبارہ انہیں وہ باتیں سنائیں۔ لیکن افسوس سے کہنا چاہوں گا کہ میاں صاحب نے میری تینوں باتوں پر اُلٹ ہی عمل کیا۔
چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے بارے میں بھی انکشاف کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میر اپہلا براہ راست رابطہ اس زمانے میں ہوا جب میں وزیر داخلہ تھا۔انہوں نے لکھا ہے کہ مجھے یاد ہے کہ ایک روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا، اچانک ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا فون آیا، بہت گھبرائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے، چوہدری صاحب، سی ڈی اے کے اہلکار میرے گھر کو گرانے کیلئے آگئے ہیں۔ ان کے ہمراہ بلڈنگ گرانے والی تمام مشینری بھی ہے۔ آپ اس معاملے میں کچھ کریں۔فون رکھتے ہی میں نے گاڑی نکلوائی اور سیدھا ان کے گھر پہنچ گیا۔ دیکھا تو سی ڈی اے اہلکار واقعی مشینری سمیت ان کے گھر کے باہر کھڑے تھے۔ میں نے ان سے بات چیت کی اور ان کو وہاں سے جانے کے لیے کہا، سی ڈی اے اہلکار مشینری سمیت واپس چلے گئے۔ یوں ڈاکٹر صاحب کا گھر گرائے جانے کا معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
اس واقعے کے چند روز بعد ڈاکٹر صاحب میرے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے میرے ساتھ اپنا ایک فیملی معاملہ ڈسکس کیا۔ معاملہ چونکہ ان کا ذاتی تھا، اس لیے اس کا تذکرہ یہاں مناسب نہیں۔ بہرحال میرا ان کے ساتھ ایک ذاتی تعلق بن گیا۔ صدر مشرف سمیت تقریباً سب کو اس کا پتا تھا۔ڈاکٹر صاحب پر جوہری توانائی بیچنے کے عوض رقم لینے کا الزام عائد ہوا تو ایک روز صدر مشرف نے مجھے اور ایس ایم ظفر کو بلا کر کہا کہ آپ دونوں حضرات ڈاکٹر صاحب کے پاس جائیں۔ ان سے کہیں کہ اس معاملے پر وہ قوم سے معافی مانگیں۔ کچھ توقف کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ چودھری صاحب، مناسب یہ ہے کہ آپ اکیلے ہی جائیں اور ان سے بات کریں۔
میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب سے ان کے گھر پر ملاقات کی۔ ان کو جنرل مشرف کا پیغام پہنچایا۔ وہ کہنے لگے۔ چودھری صاحب! مجھ پر یہ الزام سراسر جھوٹ ہے۔ میں نے کوئی چیز فروخت نہیں کی، نہ میں نے کسی سے کوئی رقم لی ہے۔ یہ فرنیچر جو میرے گھر پر آپ دیکھ رہے ہیں، یہ بھی میری بیگم کے جہیز کا فرنیچر ہے۔ میری تو یہ حالت ہے کہ نیا فرنیچر تک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ یہ لوگ مجھ پر اتنا بڑا الزام لگارہے ہیں۔بہرحال ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے ملک و قوم کے مفا د میں ٹی وی پر آکر سارا الزام اپنے سر لے لیا۔ اس پر میں نے ایک بیان جاری کیا، جس کا متن یہ ہے: ”ڈاکٹر عبدالقدیر نے بڑے پن کا ثبوت دیا ہے اور قومی مفاد میں ساری ذمے داری اپنے سر لے لی ہے۔
اس کے علاوہ بھی انہوں نے 300سے زائد صفحات میں بہت سے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ انہوں نے کتاب میں انکشاف کیا کہ پرویز مشرف سے افتخار چوہدری کی شکایت شوکت عزیز نے کی اور افتخارچوہدری کی بحالی پر پرویز مشرف کو مشورہ دیا کہ انہیں ”جپھا“ ڈال لیں لیکن دونوں کے ارد گرد موجود لوگوں نے صلح کا موقع گنوایا۔ چوہدری شجاعت نے لکھا کہ نواز شریف، آصف زرداری کے خلاف منشیات اسمگلنگ کا مقدمہ بنوانا چاہتے تھے تاہم جھوٹا مقدمہ بنانے سے انکار کر دیا تھا جب کہ آصف زرداری نے 2011 میں کہا کہ آپ کی وجہ سے آج صدر پاکستان ہوں۔اپنی کتاب میں چوہدری شجاعت حسین نے مزید لکھا کہ لال مسجد واقعے کے بارے میں سوچ کر آج بھی پریشان ہوجاتا ہوں۔چوہدری شجاعت نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا کہ 2008 کا الیکشن فکس تھا اور امریکا بےنظیر بھٹو کو وزیراعظم دیکھنا چاہتا تھا۔میرے والد ظہور الٰہی نے رحمان ملک کو نوکری دی لیکن رحمن ملک نے ڈائریکٹر ایف آئی اے بنتے ہی سب سے پہلے مجھے اور چوہدری پرویز الٰہی کو جیل میں ڈالا۔
اس کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے جو حقیقت میں شریف خاندان کے حوالے سے بہت سے انکشافات ہیں کہ یہ خاندان پاکستان کی سیاست میں کس طرح ”ان“ ہوا اور کیا کیا کرتا رہا…. میں سمجھتا ہوں کہ عصر حاضر میں اس کتاب کے حوالے سے جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اور میرا یہ دعویٰ ہے کہ جس نے بھی چوہدری شجاعت حسین کی اس کاوش کو پڑھا وہ ضرور ان کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔
Reviews
There are no reviews yet.